تو جو مل جائے
تو جو مل جائے از انا الیاس قسط نمبر8
جيسے جيسے وہيبہ بڑی ہو رہی تھی خديجہ کی اسے پيار کرنے کی تشنگی اتنی ہی بڑھ رہی تھی۔ کبھی کبھی چھپ کر وہ اسے اپنے پاس بلا کر پيار کرتی تھيں۔ وہيبہ حيران ہوتی تھی کہ خديجہ اس طرح چھپ کر اسے پيار کيوں کرتی ہيں۔ وہ انہيں سوتيلی ماں کی حيثيت سے قبول کر چکی تھی۔
مگر وہ حيران ہوتی تھی کہ اسکی اپنی ماں کون تھی کيونکہ گھر ميں کوئ اس بارے ميں بات نہيں کرتا تھا۔
ايک مرتبہ اس نے رقيہ بيگم سے پوچھا۔
"بيٹا وہ تمہاری پيدائش پر مر گئ تھی۔" رقيہ بيگم کی بات پر وہ غمزدہ ہوئ۔
"مگر انکی کوئ تصوير گھر ميں کيوں نہيں۔۔نہ انکے بارے ميں کوئ بات کرتا ہے" اس کا يہ سوچنا فطری تھا۔
"بيٹا تمہارے بابا بہت ڈسٹرب ہوۓ تھے۔ بس تبھی ساری تصويريں ہم نے ہٹا دی تھيں۔ تم بھی اپنے باپ سے ذکر مت کرنا بہت مشکل سے وہ سنبھلا تھا۔" وہ اس وقت فارتھ گريڈ ميں تھی۔ لہذا بہل گئ۔
"اور مير نانا نانی" ايک اور سوال۔
"بيٹا تمہاری نانی تو بہت پہلے اس دنيا سے چلی گئيں تھيں۔ اور نانا بھی تمہاری ماں کی وفات کے سال بعد اس دنيا سے چلے گۓ تھے" اور يہ سچ بھی تھا وہيبہ جب ايک سال کی ہوئ تب خديجہ کے والد کی وفات ہوگئ تھی۔ اب تو ان کا ميکہ بھی ختم ہو گيا تھا۔
شايد وہيبہ کو ساری زندگی يہ حقيقت نہ پتہ چلتی اگر ايک دن وہ نفيسہ اور خديجہ کی باتيں نہ سن ليتی۔
يہ تب کی بات تھی جب ابھی اس کا يونيورسٹی کا پہلا سال تھا۔
انہيں دنوں ثمينہ نے کاشف کے لئيۓ وہيبہ کا رشتہ مانگا تھا۔ مگر وہيبہ نے انکار کر ديا۔ اسے شروع سے ٹمينہ پھو پھو بہت بری لگتی تھيں۔ خديجہ آنٹی اور نفيسہ تائ کو وہ کسی خاطر ميں نہيں لاتيں تھيں۔
وہيبہ کے انکار پر وہ خديجہ کو بہت باتيں سنا کر گئيں تھيں۔ اور وہ کچن ميں بيٹھی رو رہی تھيں۔ نفيسہ وہيں کھڑی انہيں چپ کروا رہی تھيں۔
باقی سب يونيورسٹی اور کالج گۓ ہوۓ تھے۔ ايک وہی کمرے ميں تھی۔ وہ سمجھيں کہ وہ ابھی تک سو رہی ہے۔ مگر وہيبہ اس وقت اٹھ کر کچن کی جانب ناشتہ کرنے کی نيت سے آ رہی تھی يہ نہيں جانتی تھی کہ جو خبر ملے گی وہ اسکی بصوک پياس دنوں تک ختم کر دے گی۔
"بھابھی ميں نے تو آج تک اس بيچاری کو کبھی ڈھنگ سے پيار تک نہيں کيا تو ميں اسکی تربيت کيا خاک کرتی۔ نجانے کس کس بات کا طعنہ دے گئيں ہيں۔ لوگ اپنی زندگياں سسرال والوں پر قربان کر ديتے ہيں اور پھر بھی حاصل وصول کچھ نہيں ہوتا ميں نے تو اپنی اولاد اپنے جگر کا ٹکڑا ان پر قربان کر ديا اور آج بھی بری ميں ہی ہوں۔ کس کس طرح ميں وہيبہ کے لئيۓ نہيں تڑپی۔ کوئ دن ايسا نہيں جب اسے پيار کرنے کو دل نہ مچلا ہو۔ ايک ہی گھر ميں رہ کر ميں تو اسکے ايک ايک لمحے سے محروم رہی ہوں۔ کيسی بدنصيب ماں ہوں جو سگی ہوتے ہوۓ سوتيلی کے روپ ميں ہوں۔ اس محبت کی سزا ملی جو ميں نے کی ہی نہيں۔محبت کيا ملنی تھی مجھ سے تو مامتا تک چھين لی ان لوگوںں نے" وہيبہ پر تو گويا قيامت آکر گزر بھی گئ۔
اسے لگا اب وہ گر جاۓ گی ايک قدم بھی اب يہاں سے اٹھا نہيں پاۓ گی۔
وہ لڑکھڑائ جیسے ہی پاس پرے اسٹينڈ کو تھامنا چاہا وہاں رکھا واس زمين بوس ہوا۔
چھناکے کی آواز پر وہ دونوں باہر آئيں تو وہيبہ کو فرش پر بيٹھے ديکھا۔
"ہبہ بيٹے" خديجہ نے جيسے ہی اسے تھامنا چاہا اس نے غصے سے ان کا ہاتھ جھٹکا۔
"مت کہيں بيٹا۔۔۔۔" وہ پھنکاری۔ انہوں نے نفيسہ کی جانب ديکھا۔ سمجھ گئيں کہ اس نے سب سن ليا ہے۔
"ہبہ بيٹے ايسے نہيں کرتے۔۔اچھا تم اٹھو يہاں سے" نفيسہ نے اسے تھام کر اٹھانا چاہا جس کی بے يقين نظريں صرف خديجہ پر ٹکيں تھيں۔ کيسے کيسے زندگی ميں دن نہيں آۓ تھے جب ماں کی شدت سے کمی محسوس ہوئ تھی۔ سب پيار کرتے تھے۔ اماں بھی ہر طرح دھيان رکھتيں تھيں۔ مگر انہون نے کبھی پاس بلا کر محبت سے گلے نہيں لگايا تھا۔ ايک فاصلہ وہ ہميشہ رکھتی تھيں۔
باقی بچوں کو اپنی ماؤں سے لاڈ اٹھواتے ديکھ کر کتنا دل چاہتا تھا اسکی ماں بھی ہوتی تو ايسے ہی اس کا سر محبت سے گود ميں رکھتی۔ جب بھی بيمار پڑتی تھی ڈاکٹروں کی لائنيں لگ جاتی تھيں مگر جو شفا ماں کی گود کی گرمی کی تھی وہ کوئ ڈاکٹر نہيں دے سکتا تھا۔
اور ماں ۔۔۔جسے وہ خود سے اتنا دور تصور کرتی تھی۔ جہاں تک اسکی دسترس نہيں تھی۔ اس بات سے بے خبر تھی کہ اسکی تو اصل ماں اسکے پاس۔۔اسکے اردگرد تھی۔ آخر ايسی کيا مجبوری تھی جس نے ماں کی ممتا کو مار ديا تھا۔
"کيا مجبوری تھی جس نے آپ کو مجھ تک آنے ہی نہيں ديا کبھی۔۔۔"اس نے اپنی سوچ کو الفاظ دئيۓ۔ آنسو ايک لڑی کی طرح اسکی آنکھوں سے جاری تھے۔
"رشتوں کی مجبوری" انہون نے مجرمانہ انداز ميں جواب ديا۔
"کيا باقی سب اتنے اہم تھے کہ اولاد کے رشتے پر حاوی ہوگۓ" اس کی پتھرائ آنکھوں ميں انہيں اپنا آپ ديکھنا مشکل ہوگيا۔
"نہيں ميری جان" انہوں نے سسکتے ہوۓ کہا۔
وہيبہ نے اس طرز تخاطب پر لب بھينچ کر آنکھيں ميچ ليں۔ کيا تھا ان چند لفظوں ميں۔۔۔ مامتا ۔۔۔صرف اور صرف مامتا۔۔۔جسکے لئيۓ وہ پچھلے انيس سالوں سے ترس رہی تھی۔
"تم اٹھو يہاں سے پھر تمہيں ساری بات بتاتی ہوں" نفيسہ نے اسے اٹھاتے ہوۓ کہا۔
اور پھر جو حقيقت انہوں نے بتائ کاش وہ نہ ہی جانتی تو رشتوں کی اتنی مکروہ شکل نہ ديکھ پاتی۔
"آپ اتنی ارزاں تھيں کہ آپکے ساتھ انہوں نے جو چاہا کر ليا۔ آپ نے مجھے انہيں ديتے ہوۓ يہ بھی نہ سوچا کہ ميرا کيا ہوگا۔ ميں نے کب کب اور کيسے کيسے آپکو مس نہيں کيا۔۔۔آپ نے ميرے ساتھ بہت زيادتی کی۔ آپ نے بھی اور پاپا نے بھی۔ اگر رشتے نبھانے کی ہمت نہيں تھی تو آپ لوگوں کو يہ رشتہ بنانا اور پھر اسے قائم ہی نہيں رکھنا چاہئيۓ تھا۔ ميری ساری شخصيت تباہ کر دی آپ سب نے۔۔ميں کبھی اتنی نڈر ہوجاتی ہوں کہ دنيا فتح کرلوں گی اور کبھی اتنی دبو کہ ہلکی سی آہٹ سے بھی خوفزدہ ہو جاتی ہوں" وہ سراسر خديجہ اور فراز کو مورد الزام ٹھہرا رہی تھی۔ اور غلط بھی کہاں تھا۔ فراز نے محبت تو کرلی شادی بھی کر لی مگر رشتوں کو نبھا نہيں پايا اور اسکے کم حوصلے کی سزا نہ صرف خديجہ کو ملی بلکہ سب سے زيادہ سزا وہيبہ نے کاٹی۔
"بيٹا ميرے پاس تو کسی نے کوئ آپشن ہی نہيں چھوڑی تھی۔ ايک طرف طلاق تھی تو دوسری طرف تمہاری جدائ کا عذاب۔ ساری زندگی اسی آس ميں گزار دی شايد اب تمہاری دادی کا دل پسيج جاۓ" انہوں نے روتے ہوۓ اپنا دفاع کرنا چاہا۔
"ايسے درندوں کے دل نرم نہيں پڑتے۔ مگر ميں بھی انہيں چھوڑوں گی نہيں۔" يکدم وہ اٹھتی تن فن کرتی رقيہ بيگم کے کمرے کی جانب بڑھی۔
ان دونوں کو اس نے سنبھلنے کا موقع بھی نہ ديا۔
ناک کئيۓ بنا وہ دھاڑ سے اندر آئ۔
"کيا بدتميزی سے وہيبہ ناک کرکے کيوں نہيں آئيں" انہون نے ناگواری سے اسے ديکھا۔ وہ خود اپنی چئير پر بيٹھيں کوئ کتاب پڑھنے ميں مگن تھيں۔
"جو لوگ رشتے برتنے کے اخلاقيات سے ناواقف ہوں انہيں اخلاقيات کے ايسے ليکچرز ہر گز نہيں دينے چاہئيں۔" اسکی بات پر انہون نے عينک اتار کر غور سے اسکے لال بھبھوکا چہرے کو ديکھا۔
"کہنا کيا چاہتی ہو"انہوں نے اپنے ازلی سرد لہجے ميں پوچھا۔
"آپ کو کس نے حق ديا تھا خدا بننے کا۔ ميری زندہ ماں کو مرا ہوا بنا ديا۔ آپکا دل ايک لمحے کے لئيۓ کانپا نہين کہ کس سفاکيت کا مظاہرہ آپ کر رہی ہيں۔"
اس نے تلخ لہجے ميں کہا۔
"جب اسے ميرا بيٹا مجھ سے چھينتے شرم نہين آئ تو پھر ميں کيوں ايسا محسوس کرتی۔ ويسے بھی تم اسکی نظروں کے سامنے ہی رہيں ہو کون سا ميں تمہيں لے کر کہيں چلی گئ۔ اور اتنی ہی مامتا تھی اس ميں تو کوئ ماں کسی بھی چيز کے لئيۓ اپنی اولاد کی قربانی نہيں ديتی جيسے ميں اپنے بيٹے کے سامنے ہار مان کر اسے بياہ لائ اسی طرح وہ بھی تمہار ےباپ کو چھوڑ سکتی تھی۔ مگر وہ کيسے يہ دولت جائيداد چھوڑ ديتی جس کے چکر ميں اس نے تمہارے باپ کو پھنسايا تھا۔" انہوں نے ہر الزام خديجہ بيگم پر لگا ديا۔
"غلط بات مت کريں آپ نے کیوں پاپا کو انہيں طلاق کا کہا ميں سب جان چکی ہوں" اس نے انکی آنکھوں ميں آنکھيں ڈالتے ہوۓ کہا۔
"ميں تو بس امتحان لے رہی تھی مجھے پتہ تھا وہ کبھی بھی اس گھر کو نہيں چھوڑے گی" چالاک لوگوں کے سامنے کبھی کبھی ہماری ساری عقل اور ذہانت ختم ہو جاتی ہے وہيبہ کو بھی يہی لگ رہا تھا۔ انکے پاس اسکی ہر بات کا جواب تھا۔
"ميں نے تمہيں کس چیز کی کمی دی ہے سب کچھ ہو تو ہے تمہارے پاس دولت، تعليم۔۔اگر ميں اتنی ہی بری ہوتی تو تمہاری تربيت کبھی اچھے سے نہ کرتی۔۔" انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جيسے اسے مطمئن کرنا چاہا۔
"ہاں آپ نے ميری تربيت بہت اچھی کی ہے مگر ماں کی محبت سے محروم تربيت جس ميں ہر طرح کی نصحت گھلی تھی مگر محبت ميں لپٹی نہين صرف اس فرض سے گندھی تھی جو آپ نے اپنے کندھوں پر ليا تھا۔ آپ سب نے ميرے ساتھ بہت برا کيا ہے۔۔نفرتوں کے بيچ ميرے دامن خالی رہ گيا۔" اس نے لٹے پٹے انداز ميں کہا اور کمرے سے باہر چلی گئ۔
وہ جان گئ کہ وہ اپنی غلطی ماننے والی نہيں۔ اور پھر انہوں نے نفيسہ اور خديجہ کو بلا کر اتنی بے عزتی کی کہ انکے سوا اور کون تھا جو وہيبہ کو يہ سب بتاتا۔
اور بس پھر اس دن کے بعد سے وہيبہ نے وہ سب کيا جو اسکا دل کرتا تھا۔ مگر کچھ رشتوں سے اسے نفرت سی ہوگئ تھی۔ لہذا انہيں جواب دينے سے وہ چوکتی نہين تھی۔
خديجہ جب جب اسے بيٹا کہتيں وہ تڑپ جاتی۔
کوئ جان ہی نہيں سکتا تھا کہ اسکی شخصيت کن محروميوں کا شکار ہوگئ تھی۔ جو دن بدن اسے اندر سے کھوکھلا کرتی جا رہیں تھيں۔
اگلے دن صبح ميں ہی فراز صاحب رقيہ بيگم کے کمرے ميں گۓ ان سے ثمينہ کو گھر بلانے کا کہا۔ انہوں نے پوچھا بھی کہ کيا بات ہے مگر انہوں نے کوئ جواب نہ ديا۔ وہ خود بھی پريشان ہوئيں فراز صاحب کے چہرے کے خطرناک حد تک سنجيدہ تاثرات ديکھ کر۔ جيسے ہی ثمينہ آئيں انہوں نے وہيبہ کو بلايا۔ اسکے اندر آتے ہی آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے انگوٹھی لی جسے اس نے بھی منگنی کے بعد دوبارہ نہين پہنا تھا۔ "يہ آپ لڑکے والوں کو واپس کر ديں۔ مجھے اپنی بيٹی کی شادی ايسے گھٹيا لوگوں ميں نہيں کرنی" انکی بات پر رقيہ اور ثمنہ دونوں ششدر رہ گئيں۔ "کيا کہہ رہے ہو دماغ تو نہيں چل گيا تمہارا۔ بمشکل چند دن رہ گۓ ہيں اسکی شادی ميں مگر تم لوگوں کے تماشے ہی ختم ہونے ميں نہيں آ رہے۔ اماں ميں تو عذاب ميں پڑ گئ ہمدردی کرے۔ سوچا تھا بھائ کی نشانی ہے چلو کسی اچھی جگہ چلی جاۓ گی" انہون نے مصنوعی انداز ميں روتے ہوۓ کہا۔ "جس بھائ کو آپ نے کبھی محبت نہين دی اسکی نشانی سے محبت۔۔۔بڑی حيرت کی بات ہے۔ بہرحال ميری بيٹی کے لئيۓ آپکو فکر کرنے کی ضرورت نہين اور اگر اتنے ہی اچھے لوگ ہيں تو آپ شبانہ يا حسنہ کی بيٹی کی کر ديں۔" ان کی بات پر تو جيسے انہيں پتنگے لگ گۓ۔ "اب تم مجھے سکھاؤ گے کہ مجھے کيا کرنا چاہئيے۔ خود تو تم نے جو چاند چڑھانے تھے چڑھا لئيے۔ بيٹی کو بھی اپنی ہی ڈگر پر چلانا ہے کيا۔" "نہيں اللہ نے ميری بيٹی کو ايک الگ ہی شخصيت کا مالک بنايا ہے نہ تو وہ آپ جيسی حاسد بنی ہے نہ اپنے ماں باپ جيسی کم ہمت يہ تو ناصرف باہمت ہے بلکہ رشتوں کو نبھانا جانتی ہے۔ نبھانا نہ جانتی تو منگنی والے دن ہی اس گھٹيا شخص کے منہ پر يہ انگوٹھی دے مارتی جسے آپ ہيرا بنا کر ہمارے سامنے پيش کر رہی تھيں۔ کوڑا کوڑا ہی رہتا ہے چاہے جتنا مرضی اس پر سونے کا پانی چڑھا ديا جاۓ اسکی گندگی چھپ نہين سکتی۔ اور ميں اپنی اور اپنی بدنصيب بيوی کے لئيۓ تو آپ سب کے سامنے بول نہيں سکا مگر ميں اپنی بيٹی کے ساتھ زيادتی نہيں ہونے دوں گا" انہوں نے مضبوط لہجے مين کہا۔ "چپ کر جاؤ تم دونوں" آخر رقيہ بيگم چٹخ کر بوليں۔ "حد ہو گئ ہے تماشا ہی ختم نہيں ہو رہا۔ کيا مسئلہ ہے آخر تمہار فراز اچھا بھلا رشتہ ہے" ان کی غصيلی نظروں کا رخ فراز صاحب کی جانب ہوا۔ "جو کچھ رات کو اس 'شريف لڑکے' کے منہ سے نکلنے والی غلاظت ميں سن چکا ہوں اسکے بعد مر کر بھی ايسے درندے کو ميں اپنی بيٹی نہ دوں۔۔دو مرتبہ نشے ميں دھت وہ جيل کی ہوا کھا چکا ہے بہت جلد خبيب اسے سلاخوں کے پيچھے دھکيلنے والا ہے۔ اگر اس سب کے بعد بھی آپ ميری بيٹی کو اس غليظ انسان کے ساتھ بياہنے پر بضد ہيں تو آج مجھے اس بات پر يقين ہو جاۓ گا کہ ميری ماں نے حقيقتاّّ صرف مجھ سے اور ميری بيوی سے انتقام کے لئيۓ وہيبہ کو گود ليا تھا۔ کيا آپکی نفرت اتنے سالوں بعد بھی ختم نہين ہو سکی اور کيا اسکی شدت اتنی زيادہ ہے کہ اس معصوم کو بھی اس نے اپنی لپيٹ ميں لے ليا جس کا اس سارے قصے سے نہ تو کوئ واسطہ ہے اور نہ تعلق" انہون نے تاسف بھرے انداز سے ماں کو ديکھا۔ اتنے سالوں بعد آج جب وہ بولنے پر آۓ تو بولتے چلے گۓ۔ رقيہ بيگم لاجواب ہو گئيں۔ "ٹھيک ہے ميں مان گئ کہ ہارون اچھا لڑکا نہيں تو پھر اس شادی کا کيا کرو گے جو پانچ دن بعد ہے۔ بتاؤ لوگوں کو کيا منہ دکھاؤ گۓ کہ اچانک لڑکے ميں اتنے عيب ہميں نظر کيسے آگۓ اور وہ بھی شادی سے چند دن پہلے۔ اور پھر جب لڑکيوں کی اس انداز ميں شادی رکتی ہے تو پھر کوئ جگرے والا ہی انہيں قبول کرتا ہے۔۔۔بتاؤ کوئ ہے ايسا جو اب وہيبہ کو قبول کرے۔" انہوں نے فراز صاحب کو حقيقت کا آئينہ دکھايا۔ "ہاں ہے نہ صرف دل جگرے والا بلکہ اسی دن اسی تاريخ ميں وہ وہيبہ کو بياہے گا" فراز صاحب کی بات پر رقيہ، ثمينہ اور يہاں تک کہ وہيبہ نے بھی حيران ہو کر باپ کو ديکھا۔ آج وہ خاموش کھڑی تھی کيونکہ اسکی جانب سے لڑنے والا اس کا باپ تھا آج ہی تو وہ پہلا موقع تھا جب اسے حقيقت ميں محسوس ہوا تھا کہ وہ اس دنيا ميں لاوارث نہيں۔ "کون" ثمينہ اور رقيہ بيگم نے يک زبان ہو کر پوچھا۔
وہ جو ابھی کچھ دير پہلے ہی آفس آکر بيٹھا تھا اور کسی نۓ کيس کی فائل کو اسٹڈی کر رہا تھا۔ فراز صاحب کا نمبر اپنے موبائل کی اسکرين پر جگمگاتا ديکھ کر حيران پھر پريشان ہوا کيونکہ چاچو بہت کم اسے فون کرتے تھے۔ پہلا خيال يہی آيا کہ کوئ پريشانی نہ ہو گھر ميں۔ جلدی سے کال اٹينڈ کی۔ "اسلام عليکم خيريت چاچو" اس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔ "وعليکم سلام جيتے رہو بيٹا۔۔۔مجھے ابھی اس وقت تمہاری بہت شدت سے ضرورت پڑ گئ ہے۔ کسی مان کے تحت ميں نے آج تمہيں بلايا ہے اميد کرتا ہوں تم ميرا مان نہيں توڑو گے۔" انہون نے تمہيد باندھی۔ "چاچو پليز جو بات ہے کھل کر کہيں ميں آپکا بيٹا ہوں اور باپ بيٹوں سے پوچھتے نہيں حکم کرتے ہيں۔ ميں کبھی آپکا مان توڑنے کا سوچ بھی نہيں سکتا" اس نے انہيں تسلی دلائ "تو بس پھر ابھی گھر آجاؤ تفصيل ميں تمہيں پہنچنے پر بتاؤں گا۔ اور جس مقصد کے لئيۓ بلا رہا ہوں وہ بھی آنے پر ہی بتاؤں گا" وہ الجھا۔ "جی ميں نکل رہا ہوں" اس نے فائل بند کرتے کہا۔ نکلنے سے پہلے اپنے ماتحت کو کسی ايمرجنسی کا کہا اور گھر کی جانب گاڑی دوڑائ۔ فراز صاحب نے حبیيب صاحب اور کامران صاحب کو بھی گھر بلا ليا تھا۔ نفيسہ بھابھی سے بھی اجازت لے لی تھی۔ انہيں اور کيا چاہئيۓ تھا کہ وہيبہ انکی بہو بنے۔ وہ انہيں ہميشہ سے عزيز تھی۔ مگر رقيہ بيگم کی سختی کے باعث دل ميں پلنے والی يہ خواہش وہ کبھی کہہ ہی نہيں سکيں تھيں۔ اور آج جب قسمت نے موقع ديا تھا تو وہ يہ موقع گنوانا نہيں چاہتی تھيں۔ گھر کے سب بچوں ميں بھی اچانک ہونے والی اس شادی نے کھلبلی مچا دی تھی۔ سب کو کالج اور يونيورسٹيوں سے بلايا گيا۔ حسنہ اور شبانہ پر يہ خبر بم کی طرح گری انہين تو اميد ہی نہيں تھی کہ جس کا مستبل وہ تاريک کرنے کے چکروں ميں تھی اس لڑکی کی قسمت اس طرح سے پلٹا کھا جاۓ گی۔ اور پھر ہم سب پليننگز کرتے ہوۓ يہ بھول جاتے ہيں کہ سب سے بڑی ذات جب پلين بناتی ہے تو ہماری سب چالاکياں اور ہوشيارياں دھری کی دھری رہ جاتی ہيں۔ اس نے ہميں عقل کل دے کر آزمائش ميں ڈالا ہے۔ وہ ہر لمحہ ديکھتا ہے کہ ہم اس کا استعمال کيسے کرتے ہيں کہيں وہ ڈھيل ديتا ہے مگر پھر جب کسنے پر آتا ہے تو ہم اپنے ہی بنے ہوۓ جال ميں پھنس کر پھڑپھڑاتے ہيں ايک پنجرے ميں بند پرندے کی طرح۔ ايسے وقت ميں بھی وہی لوگ کندن بنتے ہيں جنہيں اللہ توفيق ديتا ہے اور جنہيں يہ توفيق نہيں ملتی انکے دل کوئلے کی مانند اور بھی سياہ اور لمحہ بہ لمحہ جلتے رہتے ہيں راکھ کا ڈھير بنتے رہتے ہيں